28 مارچ، 2024، 7:29 PM

مہر رمضان/14؛

انسان کی تربیت کا پیغمبرانہ انداز؛ موزوں اور صحت مند ماحول پیدا کرکے اجتماعی تربیت کرنا ہے

انسان کی تربیت کا پیغمبرانہ انداز؛ موزوں اور صحت مند ماحول پیدا کرکے اجتماعی تربیت کرنا ہے

الہی پیغمبروں نے انسان کی تعمیر کے لیے مناسب اور صحت مند ماحول پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ایسا ماحول جو انسان کی درست تربیت کر سکے۔

مہر خبررساں ایجنسی - دین و تفکر گروپ: پوری تاریخ میں انسان نے ہمیشہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کیونکہ انسان کو فطرت کی طرف سے ایک محتاج مخلوق کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کے اندر جو مہلک خطرہ چھپا ہوا ہے وہ ایک طرف اس کی ضروریات کا غلط اندازہ لگانا اور دوسری طرف ان ضروریات کے غلط جوابات تجویز کرنا ہے۔

 اس خطرناک راستے سے لوگوں کو بچا کر ہدایت کی راہ پر ڈالنے کے لیے  انبیائے الہی کا تحفہ وحی الٰہی کی تعلیمات کے سوا کچھ نہیں۔ 

قرآن مجید ایک انوکھا، قیمتی، شفا بخش اور رہنما تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔
 انسان اس عظیم کتاب کے عملی استعمال اور استفادے کے بغیر دنیا میں سکون اور اطمینان کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔

قرآن پاک لوگوں کو ان حقائق سے روشناس کراتا ہے کہ اکیسویں صدی کے انسان کے پاس تمام تر مادی وسائل اور ترقی کے باوجود انہیں پانے کی صلاحیت نہیں ہے، انسان ان حقائق کو پالے تو وہ اس کی طاقت اور فلاح کا باعث بنیں گے۔ 

لہٰذا صرف وہی لوگ صریح گمراہی سے بچ سکتے ہیں اور تباہی کی طرف نہیں جا سکتے جنہیں قرآن کی راہنمائی میسر رہی ہے  قرآن حکمت و ہدایت کی کتاب ہے کہ جو بھی اس کے محضر میں بیٹھتا ہے اس کی بصارت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کا دل ہدایت کے نور سے منور ہوتا ہے اور سچائی کے راستے پر چلنے کی اس کی صلاحیت بھی دوگنی ہوجائے گی۔ 

نور کے اس منبع سے مسلسل رابطے کے ذریعے ہی انسان فلاح پاسکتا ہے۔

قرآن کو حفظ کرنا قرآن کریم سے تعلق پیدا کرنے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ قرآن کو حفظ کرنے کے ساتھ اگر آیات کو سمجھنے اور زندگی میں کثرت سے استعمال کیا جائے تو یہ ہمارے لیے قرآن کریم سے زیادہ مانوس ہونے کا بہترین وسیلہ بن سکتا ہے۔

لہذا قرآن کو حفظ کرنے کی کوشش کی جائے۔ درج ذیل متن قرآن کریم کی آیات کی تشریح اور موضوعاتی حفظ کے مقصد سے دارالقرآن کی کوششوں کا نتیجہ ہے جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

ذیل میں جو کچھ پڑھ رہے ہیں، وہ "زندگی قرآنی آیات کے ساتھ" کا سترہواں حصہ ہے جو رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی کتاب " طرح کلی اندیشه اسلامی در قرآن" سے لیا گیا ہے: الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُور

آیت کے ترجمے پر ایک نظر

جنگ اور قیام کی اجازت ان لوگوں کو دی گئی جنہیں اگر ہم زمین پر اقتدار اور حکومت دے دیں تو ان کی طاقت اور حکومت کے طول و عرض میں "اَقَامُوا ٱلَّلَّوّةَ وَاِتَوْ ٱلَّقَّوّة"، وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں وہ لوگ انسان سازی کا کارخانہ قائم کریں گے اور نیکی اور اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں، تاکہ منکرات کی بیخ کنی کریں" یہ مستضعف اور مظلوم وہی لوگ ہیں کہ جنہیں حکومت مل جائے تو ان کی تمام تر کوششیں معاشرے میں خدائی احکام کی تکمیل کے لیے ہوتی ہیں۔ "واللّٰہ عاقبة الامور" اور اللہ طے کرتا ہے کہ اقتدار اور حاکمیت آخر کار ان بندوں کو ملے گی جنہیں خدا کی طرف سے " دین کی حاکمیت" کا کا مشن عطا ہوا ہے۔

بارش اور چھتری

اگر کوئی نابینا شخص بینائی پالے تو وہ سب سے پہلے اپنی چھڑی ایک طرف رکھتا ہے، وہی چھڑی جو عمر بھر اس کا سہارا تھی یا ہم لوگ جو بارش تھمنے پر چھتری بھول جاتے ہیں۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں جب وہ کوئی مقام یا قدرت حاصل کر لیتے ہیں تو سب سے پہلے وہ خدا کو بھول جاتے ہیں! وہی خدا جو ان کا سہارا، حامی و ناصر تھا جس نے انہیں اس مقام تک پہنچا دیا۔ لیکن وہ اسے بھول جاتے ہیں۔

لیکن یہ پاکیزہ اور خاصان خدا کا وطیرہ نہیں ہے، وہ مقام و قدرت ملنے یا اس سے محروم ہونے پر اپنا رابطہ خدا سے مزید مضبوط اور گہرا کرتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکات ادا کرتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔

انبیاء کا تربیتی نمونہ

انبیاء نے لوگوں کی تعلیم و تربیت  کے لیے کونسا طریقہ استعمال کیا؟  کیا وہ لوگوں کو کان پکڑ فردا فردا تعلیم دیتے یا اسکول کھول کر بیٹھ جاتے کہ لوگ آئے اور تعلیم حاصل کریں؟۔

 کیا انبیاء دنیا کے ذاہدوں اور عارفوں کی طرح اپنی خانقاہ میں بیٹھتے تھے تاکہ لوگ آئیں، ان کی روحانی حالت دیکھیں اور ان کے ساتھ شامل ہو جائیں؟ کیا انبیاء نے  فلسفیوں کی طرح درس گاہیں کھولیں، سائن بورڈ لگائے  کہ جو ہم سے سیکھنا چاہے اسے دعوت دی کہ وہ آئے اور ہم سے سیکھے؟ کیا وہ ایسے تھے؟ یا نہیں، انبیاء انفرادی تعلیم پر یقین نہیں رکھتے، انبیاء انفرادی تعلیم و تربیت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ آپ یہ تصور کریں کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ یا حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ یا ہمارے نبی ص سقراط اور افلاطون،  کی طرح مکتب میں بیٹھتے کہ لوگ جا کر ان سے تعلیم حاصل کریں۔ نہیں وہ ایسے نہیں ہیں۔ اور یقیناً اولیائے خدا نے نہ امام جعفر صادق، نہ ان کے جد اعلی، پیغمبر اسلام اور نہ ہی تمام انبیاء نے ان طریقوں کو استعمال کیا۔ مدرسہ بازی، وعظ و نصیحت اور انفرادی تربیت انبیاء کا کام نہیں ہے۔ انبیاء کے پاس اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ انسان کی تربیت کیسے کی جائے؟ 

الٰہی انسان کی تربیت کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کے پاس اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ جواب یہ ہے: انبیاء فرماتے ہیں کہ انسان کو بنانے کے لیے مناسب، صحت مند ماحول فرسہم کیا جائے، ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جو اس کی تربیت کر سکے اور بس۔
 انبیائے الہی کہتے ہیں کہ فردا فردا تربیت کے بجائے  تربیت کا کارخانہ (نظام) لگانا چاہیے۔

انبیاء کہتے ہیں کہ ہم ایک ایک کر کے لوگوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے تو زندگی گزر جائے گی۔ ان کے یہاں تربیت کے معاشرہ ضروری ہے، ایک نظام ضروری ہے، لوگوں کو نظام کی بنیادی ضرورت کے مطابق اس کے سانچے میں ڈھالا جائے اور بس۔ 

یہ نہایت اہم بات ہے۔ تمام مسائل  یہیں سے جنم لیتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ انبیاء ایک مناسب اور سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے۔

ان کا خیال ہے کہ انبیاء انفردی تربیت کرنا چاہتے تھے جبکہ فردا فردا تربیت آدم انبیاء کی شان سے دور ہے۔ وہ تو ایک انقلابی ماحول پیدا کرکے الہی نظام کے ذریعے اجتماعی تربیت چاہتے تھے۔

News ID 1922912

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha